نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کارگل جنگ کا فاتح کون؟

 کارگل جنگ کا فاتح کون؟

کارگل جنگ، جسے کارگل تنازعہ بھی کہا جاتا ہے، مئی اور جولائی 1999 کے درمیان جموں اور کشمیر، ہندوستان کے ضلع کارگل میں ہوا۔ یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک اہم تنازعہ تھا، جو کشمیر کے خطے پر دیرینہ تنازعہ کے سب سے شدید ترین واقعات میں سے ایک تھا۔


کارگل جنگ کے اہم پہلوؤں اور سچائیوں کا خلاصہ یہ ہے:

جنرل پرویز مشرف
تنازعہ کی اصل: تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب پاکستانی فوجی اور عسکریت پسند لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے اس پار ہندوستانی علاقے میں گھس آئے جو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے الگ کرتی ہے۔ اس دراندازی کا مقصد کارگل سیکٹر میں اسٹریٹجک بلندیوں پر قبضہ کرنا تھا، جس سے ہندوستانی سپلائی کے اہم راستوں کو خطرہ لاحق تھا۔
تزویراتی اہمیت: کارگل سری نگر-لیہہ ہائی وے کے قریب ہونے کی وجہ سے تزویراتی لحاظ سے اہم تھا، جو وادی کشمیر اور لداخ کے درمیان ایک اہم رابطہ ہے۔ دراندازی اس شاہراہ کو روکنے اور بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
3
ہندوستانی ر: ہندوستان نے آپریشن وجے کے ساتھ جوابی کارروائی کرتے ہوئے دراندازوں کو بھگانے اور مقبوضہ چوٹیوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی فوجی مہم شروع کی۔ ہندوستانی فوج کو دشوار گزار علاقے اور دراندازی کی حیرت انگیز نوعیت کی وجہ سے اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔۔
بین الاقوامی ردعمل: کارگل تنازعہ نے بین الاقوامی توجہ مبذول کرائی اور مذمت کی، امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں نے پاکستان پر اپنی افواج کو واپس بلانے پر زور دیا۔ اس تنازعہ نے دونوں ممالک کو ایک مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا، جس سے عالمی سطح پر خدشات بڑھ گئے۔
تنازعہ کا اختتام: دونوں طرف سے شدید لڑائی اور بھاری جانی نقصان کے بعد، ہندوستان پاکستانی افواج کو پیچھے دھکیلنے اور سٹریٹجک چوٹیوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ تنازعہ باضابطہ طور پر جولائی 1999 میں عالمی برادری کی سفارتی کوششوں کے ذریعے جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوا۔
ہلاکتیں اور نتیجہ: کارگل جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف بے شمار ہلاکتیں ہوئیں جن میں فوجی اور عام شہری بھی شامل تھے۔ اس نے پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کے تنازعہ کی حرکیات پر دیرپا اثر چھوڑا، جس سے خطے کے اتار چڑھاؤ کو واضح کیا گیا۔
وراثت اور اسباق: کارگل جنگ نے لائن آف کنٹرول پر چوکسی کی ضرورت پر زور دیا اور محدود تنازعات کے بڑھتے ہوئے بڑے تصادم کے خطرات کو اجاگر کیا۔ اس نے مستقبل میں ایسے بحرانوں کو روکنے کے لیے سفارتی کوششوں کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

کارگل جنگ ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے، جس کے اثرات اب بھی علاقائی جغرافیائی سیاست کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ تنازعہ کشمیر اور وسیع تر پاک بھارت تعلقات میں موجود پیچیدگیوں اور چیلنجوں کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے۔
انتباہ
یہاں اپ کو یہ بھی بتاتے چلے کہ یہ آپریشن جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے بغیر اجازت شروع کر دیا اور جب پاکستان کے وزیراعظم کو پتا چلا تو اس وقت پاکستان کا بہت سا جانی نقصان ہو رہا تھا اور عامی دباؤ بھی بڑھ رہا تھا پاکستان نے عالمی دنیا کو یہ بتایا کہ وہاں مجاہد لڑ رہے ہیں لیکن اصل میں وہ پاکستانی فوج تھی ۔
انڈیا اپنے علاقے میں ہی بمباری کر رہا تھا کیوں کہ پاکستانی فوج وہاں تھی تو اب عالمی دنیا کو ہم یہ بھی نہین کہہ سکتے تھے کہ ہمارے لوگ وہاں ہیں تو مجبور ہو کر پاکستانی فوج کو انڈیا کا علاقہ چھوڑنا پڑا ۔
پاک انڈیا کے تنازیں کو حل کرنے میں عالمی دنیا نے اپنا کردار ادا کیا ۔
باآغر جولائی 1999 کو عالمی برادری کی کوششوں سے جنگ بند ہوئی ۔





دعمل







تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ایرانی صدر کی پُراسرار موت

ایرانی صدر کی موت  ابراہیم رئیسی ایک ممت   از ایرانی سیاست دان اور عالم ہیں جو 2021 میں ایران کے صدر بنے تھے۔ یہاں ان کے سیاسی کیریئر، صدارت، اورانکی۔موت سے متعلق و   اقعہ کا    تفصیلی جائزہ ہے ابتدائی زندگی اور تعلیم ابراہیم رئیسی 14 دسمبر 1960 کو مشہد، ایران میں پیدا ہوئے۔ اس نے شہر قم میں دینی علوم کی تعلیم حاصل کی جو شیعہ علمی علوم کا ایک بڑا مرکز ہے۔ اس نے بااثر علما کے تحت تعلیم حاصل کی اور اسلامی قانون اور فقہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ سیاسی کیرئیر رئیسی کا سیاسی کیرئیر ایرانی عدالتی نظام اور وسیع تر سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے گہرا جڑا ہوا ہے۔ ان کے قابل ذکر عہدوں میں شامل ہیں: پراسیکیوٹر اور عدالتی کردار: 1980 کی دہائی میں رئیسی نے مختلف شہروں میں پراسیکیوٹر کے طور پر خدمات انجام دیں اور بعد میں تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر بن گئے۔ وہ 1988 میں سیاسی قیدیوں کی متنازعہ پھانسیوں میں ملوث تھا، جو ان کی میراث کا ایک متنازعہ حصہ ہے۔ 2. آستان قدس رضوی کے سربراہ: 2016 میں، رئیسی کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے آستان قدس رضوی کا سربراہ مقرر کیا، جو مشہد میں امام ر...

پاکستان کا پہلا آئین شکن صدر

پاکستان کا پہلا آئین شکن صدر  سکندر مرزا (1899-1969) پاکستان کی تاریخ کی ایک اہم سیاسی شخصیت تھے، خاص طور پر برطانوی حکومت سے آزادی کے بعد اس کے ابتدائی سالوں میں۔ ان کی زندگی اور خدمات کا خلاصہ یہ ہے: ابتدائی زندگی اور کیریئر: سکندر مرزا 1899 میں مرشد آباد، بنگال میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک فوجی پس منظر کے حامل خاندان سے آئے تھے اور برطانوی نوآبادیاتی دور حکومت میں انڈین سول سروس (ICS) میں اپنا کیریئر بنایا تھا۔ انہوں نے برطانوی ہندوستانی حکومت میں مختلف انتظامی کرداروں میں خدمات انجام دیں۔ قیام پاکستان میں کردار: پ اکستان کے قیام کی تحریک کے دوران سکندر مرزا مسلم لیگ کے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے مطالبے کے حامی تھے۔ انہوں نے 1947 میں قیام پاکستان میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا اور نئے بننے والے ملک میں انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔ پاکستان کے گورنر جنرل: آزادی کے بعد، سکندر مرزا کو 1955 میں پاکستان کا پہلا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔ اپنے دور میں، وہ ملک کے سیاسی منظر نامے کی ایک اہم شخصیت تھے، کیونکہ پاکستان برطانوی دولت مشترکہ کے تسلط سے ایک جمہوریہ ...