نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پاکستان کا پہلا آئین شکن صدر

پاکستان کا پہلا آئین شکن صدر 

سکندر مرزا (1899-1969) پاکستان کی تاریخ کی ایک اہم سیاسی شخصیت تھے، خاص طور پر برطانوی حکومت سے آزادی کے بعد اس کے ابتدائی سالوں میں۔ ان کی زندگی اور خدمات کا خلاصہ یہ ہے:

ابتدائی زندگی اور کیریئر:
سکندر مرزا 1899 میں مرشد آباد، بنگال میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک فوجی پس منظر کے حامل خاندان سے آئے تھے اور برطانوی نوآبادیاتی دور حکومت میں انڈین سول سروس (ICS) میں اپنا کیریئر بنایا تھا۔ انہوں نے برطانوی ہندوستانی حکومت میں مختلف انتظامی کرداروں میں خدمات انجام دیں۔
قیام پاکستان میں کردار:
پاکستان کے قیام کی تحریک کے دوران سکندر مرزا مسلم لیگ کے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے مطالبے کے حامی تھے۔ انہوں نے 1947 میں قیام پاکستان میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا اور نئے بننے والے ملک میں انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔
پاکستان کے گورنر جنرل:
آزادی کے بعد، سکندر مرزا کو 1955 میں پاکستان کا پہلا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔ اپنے دور میں، وہ ملک کے سیاسی منظر نامے کی ایک اہم شخصیت تھے، کیونکہ پاکستان برطانوی دولت مشترکہ کے تسلط سے ایک جمہوریہ میں تبدیل ہو رہا تھا۔
صدارت کی طرف منتقلی:
1956 میں پاکستان نے اپنا پہلا آئین منظور کیا اور ایک جمہوریہ بن گیا۔ سکندر مرزا اس نئے آئینی فریم ورک کے تحت پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ تاہم، ان کی صدارت سیاسی عدم استحکام اور کشیدگی کی طرف سے نشان لگا دیا گیا تھا.
1958 کی بغاوت میں کردار:
بڑھتی ہوئی سیاسی انتشار اور حکومت میں بدعنوانی اور نا اہلی کے بارے میں خدشات کے درمیان، سکندر مرزا کی حکمرانی کو اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اکتوبر 1958 میں، جنرل ایوب خان، اس وقت کے پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف، نے ایک فوجی بغاوت کر کے مرزا کو معزول کر کے حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا۔
بعد کے سال اور میراث:
اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سکندر مرزا نے 1969 میں اپنی موت تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ ان کی میراث ملی جلی ہے۔ جب کہ انہوں نے پاکستان کی ابتدائی سیاسی ترقی اور جمہوریہ کی طرف منتقلی میں کردار ادا کیا، صدر کے طور پر ان کا دور عدم استحکام سے دوچار ہوا اور بالآخر فوجی قبضے میں ختم ہوا۔
سکندر مرزا کی صدارت اور اس کے نتیجے میں معزولی نے پاکستان میں کئی دہائیوں کی فوجی حکمرانی کی منزلیں طے کیں، جنرل ایوب خان ملک کے نئے رہنما بن گئے اور پاکستانی سیاست میں فوجی تسلط کا دور قائم کیا۔
جنرل ایوب خان
سکندر مرزا لندن میں فوت ہوا اور اس کی لاش کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی تو سکندر مرزا کو ایران کی حکومت نے اپنے ملک دفن کر دیا ۔
یہاں اپ کو یہ بات بھی بتاتے چلے کہ سکندر مرزا میر جعفر کا پرپوتا تھا ۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کارگل جنگ کا فاتح کون؟

  کارگل جنگ کا فاتح کون؟ کارگل جنگ ، جس ے کارگل تنازعہ بھی کہا جاتا ہے، مئی اور جولائی 1999 کے درمیان جموں او ر کشمیر، ہندوستان کے ضلع کارگل میں ہوا۔ یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک اہم تنازعہ تھا، جو کشمیر کے خطے پر دیرینہ تنازعہ کے سب سے شدید ترین واقعات میں سے ایک تھا۔ کارگل جنگ کے اہم پہلوؤں اور سچائیوں کا خلاصہ یہ ہے: جنرل پرویز مشرف 1۔ ت نازعہ کی اصل : تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب پاکستانی فوجی اور ع سکریت پسند لائن آف کنٹرول (ایل او سی ) کے اس پار ہندوستانی علاقے میں گھس آئے جو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے الگ کرتی ہے۔ اس دراندازی کا مقصد کارگل سیکٹر میں اسٹریٹجک بلندیوں پر قبضہ کرنا تھا، جس سے ہندوستانی سپلائی کے اہم راستوں کو خطرہ لاحق تھا۔ 2۔ ت زویراتی اہمیت : کارگل سری نگر - لیہہ ہائی وے کے قریب ہونے کی وجہ سے تزویراتی لحاظ سے اہم تھا، جو وادی کشمیر اور لداخ کے درمیان ایک اہم رابطہ ہے۔ دراندازی اس شاہراہ کو روکنے اور بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ 3 ہ ندوستانی ر : ہندوستان نے آپریشن وجے کے ساتھ جوابی کارروائی کرتے ہوئے د...

ایرانی صدر کی پُراسرار موت

ایرانی صدر کی موت  ابراہیم رئیسی ایک ممت   از ایرانی سیاست دان اور عالم ہیں جو 2021 میں ایران کے صدر بنے تھے۔ یہاں ان کے سیاسی کیریئر، صدارت، اورانکی۔موت سے متعلق و   اقعہ کا    تفصیلی جائزہ ہے ابتدائی زندگی اور تعلیم ابراہیم رئیسی 14 دسمبر 1960 کو مشہد، ایران میں پیدا ہوئے۔ اس نے شہر قم میں دینی علوم کی تعلیم حاصل کی جو شیعہ علمی علوم کا ایک بڑا مرکز ہے۔ اس نے بااثر علما کے تحت تعلیم حاصل کی اور اسلامی قانون اور فقہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ سیاسی کیرئیر رئیسی کا سیاسی کیرئیر ایرانی عدالتی نظام اور وسیع تر سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے گہرا جڑا ہوا ہے۔ ان کے قابل ذکر عہدوں میں شامل ہیں: پراسیکیوٹر اور عدالتی کردار: 1980 کی دہائی میں رئیسی نے مختلف شہروں میں پراسیکیوٹر کے طور پر خدمات انجام دیں اور بعد میں تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر بن گئے۔ وہ 1988 میں سیاسی قیدیوں کی متنازعہ پھانسیوں میں ملوث تھا، جو ان کی میراث کا ایک متنازعہ حصہ ہے۔ 2. آستان قدس رضوی کے سربراہ: 2016 میں، رئیسی کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے آستان قدس رضوی کا سربراہ مقرر کیا، جو مشہد میں امام ر...